اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس ملک کی سب سے بڑی پرانی سیاسی پارٹی ہے۔ اس نے اپنے وجود کے تقریباً 135 سال پورے کر لیے، اور ان برسوں میں اس نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ بحیثیت سیاسی پارٹی اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، لیکن ماضی میں اسے تین چار بار تقسیم کے عمل سے گزرنا پڑا۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر پھر اس کے سایہ کے نیچے آ گئے۔

آج کانگریس کو ایک بار پھر شناخت کا مسئلہ درپیش ہے، اور اسی وجہ سے اس کا استحکام متزلزل ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے لیے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو کانگریس کے طے شدہ نظریات پر مکمل یقین اور اعتماد نہیں رکھتے۔ کئی لیڈران اپنے بے تکے بیانات سے پارٹی کی ساکھ کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ ششی تھرور اس معاملہ میں دو چار قدم آگے ہی ہیں۔ یعنی کانگریسیوں کے اندر باہمی تال میل کے فقدان سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرکز سمیت متعدد ریاستوں میں وہ اقتدار سے محروم ہوئی۔

اس وقت ضروری ہے کہ پارٹی اپنے قول و عمل کا محاسبہ کرے۔ مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر اپنا سیکولر چہرہ سامنے لائے۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ 2019 کے عام انتخابات کے بعد وہ شکست خوردگی کی چادر اوڑھ کر سوتی جا رہی ہے۔ راہل گاندھی کا کانگریس کی صدارت سے راہ فرار اختیار کر لینا، گویا میدان چھوڑ کر بھاگنا ہے۔ شکست سے زیادہ شکست خوردگی کا احساس جان لیوا ہوتا ہے۔

(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)