کیا آپ کفر و اسلام کے پہلے معرکہ کے بارے میں جانتے ہیں؟ ہم بات کر رہے ہیں غزوہ بدر کی۔ جی ہاں، وہی تاریخی جنگ جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے 313 جانثاروں (60 مہاجر اور 253 انصار صحابی) کے ساتھ 12 رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور 16 رمضان کو میدانِ بدر پہنچے۔ اس قافلے کے آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے۔ ان میں سے ایک حضرت علی المرتضیٰؓ کے ہاتھ میں تھا۔

سید دو عالمؐ نے جب صفیں آراستہ فرما لیں تو سامنے لشکر کفار کی تعداد اور اپنے بے سرو سامان قلیل افراد کو دیکھا تو اللہ کی بارگاہ میں یوں التجا کی کہ ’’اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا وہ پورا فرما۔ اے اللہ! آج اگر یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہو گئے تو روئے زمین پر قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی انسان نہیں رہے گا۔‘‘ اس کے بعد نبی کریمؐ کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے ’’عنقریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ بھاگ جائیں گے۔‘‘

17 رمضان 2 ہجری، جمعہ کے دن دوپہر کے وقت جنگ کی ابتدا ہوئی۔ محبوب خدا کی دعاؤں کے صدقے مسلمانوں کے قلیل لشکر اسلام کو اللہ نے فتح و نصرت سے سرفراز فرما کر اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ کفار کے 70 لوگ قتل ہوئے، جن میں 22 سردار تھے۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14 خوش نصیب صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا جن میں سے 6 مہاجر اور 8 انصاری تھے۔