رمضان المبارک کی الوداعی گھڑیاں قریب ہیں۔ گنتی کے چند دن بچ گئے ہیں۔ ان ایام میں جو بھی نیکی کا کام ہوا، وہ اللہ کی توفیق سے ہوا۔ لہٰذا اگر ہم اس ماہ میں کوئی بھی نیکی کر سکے تو اس پر غرور دل میں نہ آنے پائے کیونکہ اللہ کے نیک بندوں کے بارے میں آتا ہے۔ ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ وہ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ بھی دے سکتے ہیں اور (پھر بھی) دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔‘‘ (المؤمنون: 60)

محنت اور کوشش کے باوجود حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ ایسے میں دل سے ایک آواز آتی ہے کہ اے رب! تو ہمارے اعمال کو نہ دیکھ اپنی وسیع رحمت کو دیکھ۔ تو ہمیں اپنا قرب ہماری عبادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کرم کی بدولت عطا کر۔ تو اپنی عبادت کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ ہمیں اخلاص کی دولت سے نواز اور بغیر حساب کے بخش دے کیونکہ تو ہی واسع المغفرۃ ہے۔ اس رمضان میں جو کچھ ہو سکا وہ صرف تیری خاص عنایت کے سبب ہوا اور جو نہ ہو سکا وہ سراسر ہماری اپنی کوتاہی کی وجہ سے تھا۔ میں اپنا حقیر سرمایہ تیرے سپرد کرتا ہوں۔ حساب کی کمی بیشی کو تو خوب جانتا ہے۔ یا رب! ہمیں آئندہ تمام زندگی کے لیے صراط مستقیم پر جمائے رکھنا اور کبھی نیکی کے مواقع سے محروم نہ کرنا، آمین۔