استقبال رمضان کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ علیہم کا حال بیان کرتے ہوئے معلی ابن فضل التابعی فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم رمضان سے چھ مہینے پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا شروع فرما دیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ! ہمیں رمضان تک پہنچا دے‘‘، اور رمضان کے بعد چھ مہینے تک یہ دعا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ! رمضان میں ہم نے جو عبادتیں کی ہیں وہ قبول فرما۔‘‘ اسی طرح یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’سلف صالحین کی دعا یہ ہوا کرتی تھی کہ یا اللہ! مجھے رمضان تک پہنچا دے، اور رمضان مجھ تک پہنچا دے، اور پھر مجھ سے اس میں کی ہوئی عبادات قبول بھی فرما۔‘‘ (لطائف المعارف-148)۔

امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے، لیکن جب رمضان آتا تو اپنا اکثر وقت روزے اور تلاوت قرآن کے لئے خاص کر دیتے تھے۔ اسلاف کرام رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی اپنے آپ کو فارغ کر دیتے اور دنیاوی مصروفیات کم سے کم کر دیتے تھے۔ اس ماہ مبارک میں خاص اہتمام و عنایت فرمایا کرتے تھے، بکثرت تلاوت کرتے، بلکہ بعض سلف تو دو دو، تین تین دن میں ہی قرآن کریم ختم کر لیتے۔ (بعض علماء نے کہا ہے کہ حدیث میں تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے کی جو ممانعت ہے، اس کا تعلق عام حالات و ایام سے ہے، فضیلت والے اوقات و ایام اور فضیلت والے مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں) واللہ اعلم۔

(تحریر: طیبہ شمیم تیمی، دربھنگہ)