رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے۔ یہ بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے، اور یہ ہزار مہینے کم از کم ہیں کیونکہ ’خیر من الف شھر‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہئے گا، عطا فرما دے گا۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی ’مرتبہ‘ کے ہیں۔ چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے، اس لیے اسے ’لیلۃ القدر‘ کہا جاتا ہے۔ (القرطبی-130:20)

قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرشِ زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (تفسیر الخازن-395:4)

شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپؐ کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے ’’جب رسولؐ کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپؐ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟ (پس) آپؐ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی، جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔‘‘