ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد 13 سال تک مکہ معظمہ ہی میں لوگوں کو خدائے پاک کا حکم سناتے اور تبلیغ کرتے رہے۔ اور بہت زمانے تک سوائے ایمان لانے اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلانے کے کوئی اور حکم نہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ خدائے پاک کے یہاں سے احکام آنا شروع ہوئے۔

اسلام کے ارکان میں سے ایمان کے بعد سب سے پہلے نماز فرض ہوئی۔ پھر جب آپؐ مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں اور بہت سے احکام آنا شروع ہوئے۔ انھیں میں سے ایک ضروری حکم روزوں کا بھی تھا۔ سب سے پہلے عاشورا کا ایک روزہ فرض ہوا۔ اس کے بعد رمضان شریف کے روزوں کا حکم ہوا۔ لیکن شروع میں اس کے اندر اتنی رعایت رہی کہ جس کا جی چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے ایک روزے کے بدلے کسی غریب کو ایک دن کا کھانا کھلا دے۔ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آہستہ آہستہ آگے بڑھایا ہے۔

چنانچہ جب اس طرح کچھ زمانہ گزر گیا اور لوگوں کو روزے رکھنے کی کچھ عادت ہو گئی تو معذور اور بیمار لوگوں کے سوا باقی سب کے حق میں یہ اختیار ختم کر دیا گیا اور ہجرت سے ڈیڑھ سال بعد 10 شعبان 2 ہجری کو مدینہ منورہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم آ گیا۔ اور ایمان کے چار اہم فرائض میں سے ایک بنیادی حکم بنا دیا گیا اور ان کے علاوہ اور کوئی روزہ فرض نہیں رہا۔

(بشکریہ: ’رمضان کیا ہے؟‘، مصنف محمد عبداللہ دہلوی، صفحہ 46-45)