اردو کے نامور ادیب ابواللیث جاوید کا 21 مئی کی شام طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ 85 سالہ مشہور و معروف ادیب کے انتقال کی خبر نے ادبی دنیا میں غم و اندوہ کی لہر پیدا کر دی ہے۔ انھوں نے سوموار کی شام تقریباً سوا پانچ بجے آخری سانس لی۔ وہ ابوالفضل واقع مشہور الشفاء اسپتال میں تقریباً ایک ہفتہ سے زیر علاج تھے اور ان کی صحت یابی کے لیے دوست و احباب دعائیں کر رہے تھے۔

ابواللیث جاوید کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور بہار حکومت میں سینئر ملازم کے طور پر فرائض انجام دیے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابوالفضل انکلیو میں آباد ہو گئے تھے اور اپنے بیشتر اوقات کو اردو کتابیں لکھنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ حال ہی میں انھوں نے اپنے آبائی شہر سہسرام واقع اکبر پور کی تاریخ پر ایک بے مثال کتاب لکھی۔

بتایا جاتا ہے کہ ابواللیث جاوید گزشتہ کئی ماہ سے پروسٹیٹ کینسر کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ ان کے انتقال سے اردو ادب کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اور تعزیت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بہرحال، ان کی نماز جنازہ 23 مئی (منگل) کی صبح تقریباً 9 بجے شاہین باغ قبرستان میں پڑھائی جائے گی اور وہیں تدفین کا عمل انجام پائے گا۔ یہ جانکاری ایک میڈیا رپورٹ میں جامعہ اسکول کے سبکدوش استاد محمد شمیم (جو کہ ابواللیث جاوید کے خاندان سے قربت رکھتے ہیں) کے حوالے سے دی گئی ہے۔