کئی دور کی میٹنگوں کے بعد بھی روس-یوکرین جنگ جاری ہے۔ جنگ شروع ہوئے تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں اور کچھ ممالک نے روس پر کئی معاشی پابندیاں بھی نافذ کر دی ہیں، لیکن نہ ہی روس اپنے قدم پیچھے کھینچنے کو تیار ہے اور نہ ہی یوکرین شکست ماننے کو تیار۔ اس درمیان یوکرین کی راجدھانی کیف سے ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں جو عام شہریوں پر روسی فوجیوں کے مبینہ مظالم کی داستان کہہ رہی ہیں۔
یوکرین میں جانچ کا عمل انجام دے رہے کچھ افسران کا کہنا ہے کہ کیف کے آس پاس واقع علاقوں میں سڑکوں، یارڈوں اور اجتماعی قبروں سے ایک ہزار سے زائد شہریوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھ اور پیر، یا پھر ان کے سر کے پیچھے بندوق کی گولی کے زخم ہیں۔ افسران کا کہنا ہے کہ کیف کے پاس بوروڈینکا کے تباہ شہر میں ایک اسپتال کے آس پاس کی زمین پر 9 شہریوں کی لاشیں ملی ہیں، جن میں سے بیشتر کو گولی ماری گئی تھی۔ کیف کے علاقائی فوجی ایڈمنسٹریشن چیف نے اسے روسی فوجیوں کے ظلم سے تعبیر کیا ہے۔
کیف کے فوجی چیف نے بتایا کہ فورنسک ماہرین برآمد لاشوں کی جانچ کر رہے ہیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ لاشوں کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے تھے، ان کے پیر بھی بندھے ہوئے تھے اور جسم کے الگ الگ حصوں میں گولی ماری گئی تھی۔ حالات ایسے دگرگوں ہیں کہ بین الاقوامی کریمنل کورٹ کے چیف پرازیکیوٹر نے یوکرین کو ’مقامِ جرم‘ تک کہہ دیا ہے۔