ہندوستان کی کئی ریاستوں میں اس وقت ہندو-مسلم منافرت کی لہر تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہاراشٹر میں بھی مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹائے جانے کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ اس درمیان شیوسینا کے رسالہ ’سامنا‘ میں اس ماحول کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ’سامنا‘ کے اداریہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی جے پی کا ہندوتوا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس نے ایک ’نئے ہندوتوا‘ کو اختیار کیا ہے جس سے ملک میں تقسیم ہند سے پہلے جیسے حالات بنائے جا رہے ہیں۔
رسالہ میں مسجد کے باہر ’ہنومان چالیسا‘ بجانے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ اگر ہنومان چالیسا چلانے سے چین کے فوجی گلوان وادی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اسے چلانا ٹھیک کہا جا سکتا ہے۔ شیوسینا نے طنزیہ انداز میں یہ سوال بھی کیا ہے کہ ’’کیا مسجد کے باہر ہنومان چالیسا چلانے سے کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بے روزگاری دور ہو جائے گی۔‘‘
کرناٹک میں حجاب تنازعہ اور مسلمانوں کو مندروں کے باہر کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دینے کے مطالبہ جیسے ایشوز کا تذکرہ کرتے ہوئے ’سامنا‘ میں لکھا گیا ہے کہ ’’بی جی پی کے نئے ہندوتوا پر مبنی ملک میں تقسیم کے پہلے جیسے حالات بن رہے ہیں۔ واضح ہے کہ بی جے پی کا ہندوتوا مفاد پر مبنی اور کھوکھلا ہے۔ اس سے یہ شبہ اور گہراتا جا رہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے لیے فساد کرانے اور دراڑ پیدا کرنے میں ان کا کردار ہے۔‘‘