ایک طرف جہاں سعودی عرب خواتین کو ہر شعبہ میں آزادی فراہم کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت نے راجدھانی کابل میں خواتین پر پارکوں اور میلوں میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ نیا اصول رواں ہفتے سے ہی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ افغانستان میں پہلے ہی خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں، اور اب اس نئی پابندی سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ یقینی ہے۔
غور طلب ہے کہ افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے، خواتین پر طرح طرح کی پابندیاں لگنی شروع ہو گئی ہیں۔ افغان خواتین نئی حکومت بننے کے بعد گھروں سے باہر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں بھی طلبا اور طالبات کے لیے علیحدہ انتظام دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حتیٰ کہ بچیوں کو درجہ ششم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی افغانستان حکومت نے نہیں دی ہے۔ خواتین کو چہرہ چھپا کر رکھنے کی ہدایت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور تفریحی سرگرمیوں میں بھی یہ شرکت نہیں کر سکتیں۔
خواتین پر طالبان حکومت کی تازہ پابندی کے بعد ایک خاتون سماجی کارکن نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں خواتین کے لیے نہ ہی اسکول ہے اور نہ ہی کام۔ ہمارے پاس ایک ہی جگہ (پارک) تھی، اور یہاں بھی داخلے پر پوری طرح سے پابندی لگا دی گئی ہے۔‘‘