نئی دہلی: ’’پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ استوتی اگروال اس قول کی مصداق ہیں۔ میں ان کو مستقبل کی گوپی چند نارنگ کے طور پر دیکھتی ہوں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار فورم فار انٹلکچوئل ڈسکورس اور دی ونگس فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام ڈائنامک انگلش، بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی میں سیفی سرونجی اور استوتی اگروال کے اعزاز میں منعقدہ نشست میں سابق پرو وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ممتاز سائنسداں پروفیسر تسنیم فاطمہ نے کیا۔ سیفی سرونجی سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’’جس زبان میں سیفی سرونجی جیسے سخت جدوجہد کرنے والے لوگ موجود ہوں اس زبان کو کبھی موت نہیں آ سکتی۔‘‘
اس موقع پر معروف ادیب و شاعر پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ استوتی اگروال نے بارہویں بورڈ امتحان کے اردو پرچہ میں 95 نمبر حاصل کر نہ صرف مدھیہ پردیش کا نام روشن کیا بلکہ اردو کے حوالے سے اس مفروضے کی بھی تردید کر دی کہ یہ کسی خاص مذہبی اقلیت کی زبان ہے۔ استوتی کے علمی مربی سیفی سرونجی اور ان کے والد انل اگروال قابلِ صد مبارکباد ہیں۔
صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے مشہور صحافی سہیل انجم نے کہا کہ غیر اردو خاندان سے تعلق رکھنے والی کمسن استوتی اگروال کا اردو میں ایسی نمایاں کامیابی حاصل کرنا اور دو اہم رسائل ’انتساب‘ اور ’عالمی ادب‘ کے نائب مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینا یقیناً لائقِ تحسین کارنامہ ہے۔ اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر خالد مبشر نے کی۔ شرکا میں جمیل سرور، ڈاکٹر محمد اجمل، ڈاکٹر سلمان فیصل، ڈاکٹر امتاز احمد علیمی وغیرہ شامل تھے۔