ہندوؤں کو کئی ریاستوں میں اقلیت کا درجہ دینے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کسی بھی طبقہ کے مذہبی اور لسانی اقلیت کا درجہ ریاست کی آبادی کی بنیاد پر ریاست وار طے ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق یہ مذاق ہوگا اگر میزورم اور ناگالینڈ میں اکثریت عیسائیوں کو اقلیت کا درجہ دیا جائے یا پنجاب میں سکھوں کو اقلیتی طبقہ مانا جائے۔
دراصل سپریم کورٹ کے سامنے ایک مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) داخل کر ان ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی طبقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں ان کی آبادی دوسرے طبقات سے کم ہیں۔ عرضی دہندہ نے کچھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کا حوالہ دیا ہے جہاں ہندوؤں کی آبادی دوسرے طبقات سے کم ہیں۔ مثلاً لداخ میں ہندوؤں کی آبادی ایک فیصد، میزورم میں 2.8 فیصد، لکشدیپ میں 2.8 فیصد، کشمیر میں 4 فیصد، ناگالینڈ میں 8.7 فیصد، میگھالیہ میں 11.5 فیصد ہے۔
عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس یو یو للت، ایس رویندر بھٹ اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے کہا کہ مراٹھی زبان کے لوگ مہاراشٹر کے باہر اقلیتی طبقہ ہوں گے جبکہ کنڑ بولنے والے مہاراشٹر میں اقلیت ہیں۔ ساتھ ہی بنچ نے کہا کہ وہ ہندوؤں کے لیے اقلیتی درجہ کے معاملے کا ہوا میں تجزیہ نہیں کرے گی۔ عرضی دہندہ کوئی ٹھوس مثال پیش کرے کہ ہندوؤں کو ان ریاستوں میں اقلیت کا فائدہ نہیں مل رہا جہاں ان کی آبادی دوسرے طبقات سے کم ہے۔