تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی رکن ٹی راجہ سنگھ کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بکواس نے حیدر آباد ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے قلب کو چھلنی کر دیا ہے۔ ٹی راجہ پر 101 مقدمات پہلے سے درج ہیں، جس میں 18 کا تعلق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے ہے۔ حیدر آباد میں اسے گرفتار کیا گیا، لیکن یہ گرفتاری ان دفعات کے تحت ہوئی تھی جس میں پولس کو پہلے نوٹس دینا ہوتا ہے۔ پولس نے چونکہ یہ نہیں کیا تھا، اس لیے عدالت نے تکنیکی بنیاد پر اسے رہا کر دیا۔

اس رہائی کے نتیجے میں مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس درمیان تین اجنبیوں نے پولس پر پتھراؤ کر دیا۔ پھر پولس نے اپنا غصہ اتارنے کے لیے ہر وہ کام کیا جو اس کی روایت رہی ہے۔ 90 مسلمان گرفتار ہوئے اور پولس نے گھروں میں گھس کر مسلمانوں کو زد و کوب کیا۔ ایم آئی ایم صدر و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کسی طرح ان کو پولس کی گرفت سے آزاد کرایا اور گھروں تک پہنچانے کا قابل تعریف کام کیا۔

مسلمانوں نے اس موقع سے ایک نعرہ لگایا تھا ’گستاخ رسول کی یہی سزا، سر تن سے جدا، سر تن سے جدا‘۔ اس نعرے کے سبب آر ایس ایس اور بی جے پی والے بھی سڑکوں پر آئے اور جس ٹی راجہ کی پارٹی میں کوئی پکڑ نہیں تھی، راتوں رات ہیرو بن گیا۔ اپنی بکواس سے وہ یہی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، جو اسے مل گیا۔

(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)