ٹی-20 عالمی کپ کا فائنل مقابلہ 14 نومبر کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ آسٹریلیائی کپتان ایرن فنچ نے ٹاس جیتا اور بلاجھجک گیندبازی کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ فنچ نے ٹاس نہیں بلکہ میچ جیت لیا ہے، اور ساتھ ہی عالمی کپ خطاب بھی۔ جیت کے لیے ضروری 173 رنوں کا ہدف 18.5 اوور میں حاصل کر آسٹریلیا نے اس پر مہر بھی ثبت کر دیا۔ لیکن اب آئی سی سی ٹورنامنٹ سوالوں کے گھیرے میں آ گیا ہے۔ کرکٹ شیدائی کے ساتھ ساتھ کرکٹ ماہرین بھی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر ’ٹاس‘ اچھے کھلاڑیوں سے زیادہ اہم کیسے ہو گیا؟
دراصل ٹی-20 عالمی کپ میں یہ رجحان صاف دیکھا گیا کہ ٹاس جیتنے والا کپتان گیندبازی کا انتخاب کرتا ہے اور بعد میں بلے بازی کرتے ہوئے میچ جیت جاتا ہے۔ یعنی ٹاس جیتو، میچ جیتو۔ اس عالمی کپ میں کھیلے گئے 45 میچوں میں سے تقریباً 30 میچوں کا نتیجہ ایسے ہی نکلا ہے۔ صرف کچھ کمزور ٹیموں کے ساتھ کھیلے گئے میچ میں ٹاس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ سیمی فائنل اور فائنل میچ میں جو کچھ ہوا اس نے تو دودھ کا دودھ، اور پانی کا پانی کر دیا۔ پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو شکست دی۔ دوسرے سیمی فائنل میں غیر مفتوح پاکستان کو ٹاس کے ساتھ میچ گنوانا پڑا۔ پھر فائنل میں 172 رن بنانے کے باوجود نیوزی لینڈ عالمی کپ کا خطاب اپنے نام نہ کر سکی۔