ربیع الاول کا مہینہ اس عظیم رسول کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے جانا جاتا ہے جس سے بہتر انسان اس روئے زمین پر نہیں آیا۔ ہمارا ایمان تمام انبیاء و رسل پر ہے اور ہم سب کی عظمت و فضیلت کے قائل ہیں۔ یہ ہمارے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کا حصہ ہے۔

آپؐ کی بعثت سے پہلے ہر طرف ظلم کا بازار گرم تھا۔ انسان، انسان کے خون کا پیاسا تھا۔ عربی و عجمی اور کالے و گورے کے نام پر خود ساختہ برتری کے پیمانے وضع کر لیے گئے تھے۔ عورتوں کے اوپر ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا، بہت سارے قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ ان حالات میں اللہ کے رسولؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔ چالیس سال تک اپنی پاکبازی، کردار کی بلندی، امانت و دیانت کی رفعت کا نمونہ پیش کیا۔

چالیس سال بعد آپؐ نے اعلان نبوت کیا۔ مخالفین کے سب و شتم اور نازیبا حرکات کو سنا اور سہا۔ یہ رحمت ہی کی ایک قسم ہے کہ آپ نے قدرت کے باوجود اور بارگاہ الٰہی سے مقبولیت کے یقین کے باوجود ان کے لیے کبھی بد دعا نہیں کی۔ ہاں، رحمۃ للعالمین ہونے کا سب سے بڑا مظاہرہ قیامت کے دن ہوگا، جب سارے انبیاء بخشش کے لیے سفارش اور شفاعت سے انکار کر دیں گے۔ ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پیسنے میں ڈوبا ہوگا۔ ایسے میں آقاؐ امت کی شفاعت کے لیے بار گاہ الٰہی میں سر بسجود ہوں گے۔ پھر خوش خبری سنائی جائے گی کہ گنہگاروں کو بخش دیا گیا۔

(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)