مغربی بنگال میں ہندوستانی تہذیب اور ہندو-مسلم اتحاد کی بے شمار مثالیں آپ کو دیکھنے مل جائیں گی۔ ایک مثال شمالی 24 پرگنہ کے باراسات میں بھی موجود ہے جہاں ہندو فیملی گزشتہ 5 دہائیوں سے ایک مسجد کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ مقامی مسلمان اس فیملی کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کے جذبۂ خلوص کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔ مسجد کو لوگ ’امنتی مسجد‘ کے نام سے جانتے ہیں جہاں امامت کا فریضہ اختر علی انجام دے رہے ہیں۔ وہ بھی ہندو فیملی کی خوب تعریف کرتے ہیں اور مسجد کے بارے میں کئی باتیں بتاتے ہیں۔
اختر علی نے بتایا کہ بنیادی طور پر یہ مسجد تقریباً 500 سل قدیم ہے۔ لیکن بوس فیملی نے جب اس جگہ کو حاصل کیا تو مسجد کی از سر نو تعمیر ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے یہ مسجد غیاث الدین مورول کے پاس تھی اور کافی خستہ حال تھی۔ بعد میں غیاث الدین نے ایشور نرود بوس کو یہ زمین دے دی اور بنگلہ دیش چلا گیا۔ تب سے بوس فیملی ہی امنتی مسجد کا انتظام دیکھ رہی ہے۔
ایشور نرود بوس کے 74 سالہ بیٹے دیپک بوس کہتے ہیں کہ 1964 میں وہ شمالی پاکستان سے باراسات (مغربی بنگال) آئے تھے۔ غیاث الدین سے زمین کی اَدلا بدلا ہوئی تھی۔ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جسے توڑنے سے ان کی ماں نے منع کر دیا اور مرمت کروا کے پہلا دِیا جلایا۔ ابھی دیپک کے بیٹے پارتھو گھوس مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔