گجرات فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی شکار بلقیس بانو نے انصاف پانے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی تھی۔ 6 سال کی سخت جدوجہد کے بعد 2008 میں بلقیس کو تھوڑا سکون ملا جب 11 افراد کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی۔ لیکن گزشتہ 15 اگست یعنی یومِ آزادی کے موقع پر سبھی 11 گنہگاروں کو جیل سے آزاد کر دیا گیا۔ اس خبر سے بلقیس کا زخم پھر تازہ ہو گیا اور انھوں نے کہا ’’مجھے اپنے ملک کی عدالتوں پر بھروسہ تھا۔ مجھے نظام پر بھروسہ تھا۔ میرے زخم دھیرے دھیرے بھر رہے تھے۔ میں جینا سیکھ رہی تھی۔ ان گنہگاروں کی رِہائی نے میرا سکون چھین لیا ہے، اور انصاف پر میرے اعتماد کو ہلا دیا ہے۔‘‘

مجرموں کی رِہائی پر انھیں عمر قید کی سزا سنانے والے جج بھی حیران ہیں۔ جسٹس (سبکدوش) یو ڈی سالوی نے کہا کہ ’’جو فیصلہ (2008 میں) دیا گیا تھا، وہ بہت کچھ واضح کرتا ہے۔ اس (بلقیس) نے جرم میں شامل لوگوں کے نام بتائے تھے۔ یہ صرف ملزم کی شناخت پر مبنی نہیں تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’فیصلہ بہت پہلے دیا گیا تھا۔ اب یہ حکومت کے ہاتھ میں ہے، ریاست کو فیصلہ لینا ہے۔ یہ درست ہے یا نہیں، یہ متعلقہ عدالت یا ہائی کورٹ کو دیکھنا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’عدالت کے سامنے موجود ثبوت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقی منظرنامہ کے ساتھ ساتھ حقائق دیکھیں اور پھر فیصلہ لیں۔ اسے اس طرح آئسولیشن میں نہ لیں۔‘‘