تاج محل کے بند 22 کمروں کو کھلوانے اور اس کی جانچ کرانے کے لیے ایودھیا کے بی جے پی میڈیا انچارج رجنیش سنگھ نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر رکھی ہے۔ انھوں نے اس عرضی کے ذریعہ ایک بار پھر ’تاج محل‘ کو ’تیجو مہالیہ‘ بتانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ 2017 میں مرکز کی مودی حکومت نے واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ تاج محل مقبرہ ہے، پھر بھی مغلوں کی نشانی پر ہندوتوا طاقتوں کی نگاہ جمی ہوئی ہے۔

دراصل 2015 میں اس وقت تاج محل تنازعہ عدالت پہنچا تھا جب 6 وکیلوں نے آگرہ کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انھیں تاج محل میں دَرشن کرنے دیا جائے، پوجا کی اجازت ملے اور وہاں ہو رہی مسلمانوں کی نماز پر روک لگے۔ ان وکلاء کی دلیل تھی کہ تاج محل دراصل تیجو مہالیہ ہے اور شاہجہاں نے اسے راجہ جئے سنگھ سے چھین لیا تھا۔

’بار اینڈ بنچ‘ کی رپورٹ کے مطابق اس تعلق سے 2017 میں مرکز نے عدالت میں اپنا جواب داخل کرتے ہوئے ان تمام دعووں کو فضول قرار دیا تھا۔ حکومت نے عدالت میں یہ بھی مانا تھا کہ تاج محل کی تعمیر شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز کی یاد میں کروائی تھی۔ اتنا ہی نہیں، بعد میں ’اے ایس آئی‘ (آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا) نے بھی آگرہ کورٹ میں اپنا جواب داخل کیا تھا۔ اس میں عدالت کو واضح لفظوں میں بتایا گیا تھا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے، مندر نہیں۔