’’تقسیم ہند کے بعد کے اردو ادب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج، سیاست اور تہذیب پر تقسیم کے مرتب اثرات کا گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اس سانحے نے اردو کا سارا منظرنامہ ہی بدل دیا۔ تقسیم سے قبل اردو زبان کا قاری ایک وسیع دنیا کا باشندہ تھا، لیکن اس کے بعد دائرہ سکڑ گیا۔ نئے سیاسی نظام اور ہجرت کے نتیجے میں پیدا شدہ ادب پر کرب، خوف اور تنہائی کی فضا چھائی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ یہ باتیں پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی (امریکہ) کی استاذ ڈاکٹر فوزیہ فاروقی نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ’اردو شاعری تقسیم کے بعد‘ موضوع پر منعقد آن لائن بین الاقوامی توسیعی خطبہ کے دوران کہیں۔
صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے صدارتی کلمات میں کہا کہ ’’ادب کی دنیا میں تخلیق پر تنقید کا غلبہ اور نقاد کی اجارہ داری کوئی فال نیک نہیں۔ سچا تخلیق کار کسی منظم و منصوبہ بند تحریک و رجحان کا اسیر نہیں ہو سکتا۔‘‘ پروفیسر خالد جاوید نے ڈاکٹر فوزیہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’جنوب ایشیائی زبانوں کے ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ ادب کے سیاسی اور تہذیبی تناظرات کا بسیط اداراک رکھتی ہیں۔‘‘ پروفیسر احمد محفوظ نے کہا ’’ترقی پسند تحریک نے کھلم کھلا ادبی قدروں کو ثانوی درجے کی چیز قرار دیتے ہوئے ادب کو طبقاتی کشمکش اور مخصوص نظریے کے پروپیگنڈے کا ہتھکنڈہ بنا دیا۔ جدیدیت نے ادب کی ادبیت کو از سر نو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘