اُردو کا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ 27 مارچ 1822 کو شائع ہوا تھا، اور آج 200 سالوں بعد جب ہم اردو صحافت کی حالت دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے۔ ایک دور تھا جب آزادیٔ ہند میں اُردو صحافت نے سرگرم کردار نبھایا تھا، اور آج کچھ اخبارات و رسائل کو چھوڑ دیا جائے تو صحافتی معیار دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ نہ اس میں وہ طاقت نظر آتی ہے کہ کسی تحریک کو طاقت بخش سکے، اور نہ ہی اس میں ایمانداری دکھائی پڑتی ہے کہ عوامی فلاح کے ایشوز اٹھا سکے۔ اخبارات و رسائل میں غلطیاں تو اتنی ہوتی ہیں کہ کئی بار پڑھتے ہوئے حالت زار پررونا آتا ہے۔
جب صحافت کی اس خستہ حالی کے اسباب پر غور کرتا ہوں تو سب سے بڑی وجہ ’اردو زبان‘ کی خستہ حالی معلوم پڑتی ہے۔ جب اُردو کا معیار ہی زوال پذیر ہے تو پھر اردو صحافت کے معیار کی ہم کیسے بات کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف اُردو بولنے سے اُردو نہیں بچنے والی، ہمیں اُردو پڑھنا بھی ہوگا اور اُردو لکھنا بھی ہوگا۔ سب سے ضروری ہے اُردو رسم الخط اختیار کرنا۔ ایسا کر کے ہی ہم اردو کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو معیاری بنا سکتے ہیں۔
شاید ہم بھول گئے ہیں کہ اردو گنگا-جمنی تہذیب کا گہوار ہے۔ ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو ہی بھارت ہے، اور بھارت ہی اردو ہے۔ اردو صحافت کے 200 سال کا جشن مناتے ہوئے ہمیں خوشی ہو رہی ہے، لیکن کچھ پختہ عزائم کی بھی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار ایم. ڈبلیو. انصاری چھتیس گڑھ کے سابق ڈی جی پی اور مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سابق سکریٹری ہیں )