موہن بھاگوت اور عمیر الیاسی کی ملاقات سرخیوں میں ہے۔ اس سے قبل 22 اگست کو پانچ مسلمانوں نے (شاہد صدیقی، ایس وائی قریشی، نجیب جنگ، ضمیر الدین شاہ اور سعید شروانی) آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔ پھر بھاگوت نے ان لوگوں سے ملنے کا منصوبہ بنایا جو نام کے اعتبار سے تو مسلمان ہیں، لیکن ان کی فکر و تعلقات آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے مضبوط رہے ہیں۔ ان میں ایک نام آل انڈیا مسلم امام آرگنائزیشن کے سربراہ عمیر الیاسی کا ہے۔
عمیر الیاسی اپنی غیر مسلم بیوی کے قتل میں عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ عدالت میں زیر التوا فائل کبھی بھی کھل سکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بھاگوت کے وفد کا خیر مقدم کیا اور انھیں ’راشٹرپتا‘ تک کہہ ڈالا۔ ٹی وی پر اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش بھی کیا گیا۔ باور کرایا گیا کہ آر ایس ایس کے نظریہ میں تبدیلی آئی ہے اور وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ حالانکہ اس کی حیثیت ’ایں خیال است، و محال است و جنون‘ سے زائد کچھ نہیں۔
جب جمعیۃ علماء ہند کے قائد کی ملاقات کا کوئی اثر نہ آر ایس ایس پر پڑا نہ ہی ملک میں جاری نفرت کی سیاست پر، تو یہ چند بیوروکریٹ اور عمیر الیاسی جیسے لوگ، جن کی مسلم سماج میں کوئی پکڑ نہیں، کیا کر سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکالمے جاری نہ رہیں۔ ضرور رہیں، لیکن حقیقی مسلم قائدین کے ساتھ۔ تبھی کوئی نتیجہ نکلے گا۔
(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)