اتر پردیش کی یوگی حکومت نے فوری اثر سے 841 وکلاء کو برخواست کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ محکمہ قانون و انصاف کے خصوصی سکریٹری نکنج متل کی طرف سے اس سلسلے میں حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ میں مقرر سبھی سرکاری وکلاء کی خدمات ختم کر دی گئی ہیں۔ اس حکم میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی چیف بنچ سے 505 ریاستی لاء افسر اور ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ سے 336 سرکاری وکلاء کی چھٹی کی گئی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق لکھنؤ بنچ کے دو چیف اسٹینڈنگ کونسل کی خدمات ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 33 ایڈیشنل سرکاری وکلاء، کریمنل سائیڈ کے 66 اور 176 سول بریف ہولڈر کو ہٹایا گیا ہے۔ 59 ایڈیشنل چیف اسٹینڈنگ کونسل اور اسٹینڈنگ کونسل کی خدمات بھی ختم کی گئی ہیں۔ حالانکہ ریاستی حکومت نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں 366 اور لکھنؤ ڈویژنل بنچ میں 220 نئے سرکاری وکلاء کی تقرری بھی کی ہے۔
آئیے اب جانتے ہیں کہ جن وکلاء کی خدمات کو ختم کیا گیا، آخر ان کا قصور کیا تھا۔ دراصل اتر پردیش حکومت اس سلسلے میں طویل مدت سے غور و خوض کر رہی تھی۔ اس معاملے میں پہلے اسکروٹنی کا عمل انجام دیا گیا، اور پھر جانچ کے دوران پایا گیا کہ کئی وکلاء بیشتر مواقع پر غیر حاضر رہتے تھے۔ کچھ وکیلوں کی غیر ذمہ داریوں کے بارے میں بھی حکومت کو پتہ چلا۔ ان وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یوگی حکومت نے انھیں برخواست کرنے کا سخت قدم اٹھایا۔