رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے 23 ستمبر کو ایک ایسا ٹوئٹ کیا جس پر انھیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’اسپتال میں داخل اپنے رشتہ دار کی دیکھ بھال کرنے والے کسی گوشے میں، کسی کو تکلیف دیے بغیر، اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرتے ہیں تو اس میں جرم کیا ہے؟ کیا یوپی پولیس کے پاس کوئی اور کام نہیں ہے؟ جہاں بھی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں نمازیوں پر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے۔‘‘

دراصل اویسی نے یہ ٹوئٹ ’نیوز 24‘ کی ایک ویڈیو پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے کیا ہے۔ ویڈیو میں ایک خاتون نماز پڑھ رہی ہے۔ ویڈیو کے ساتھ ’نیوز 24‘ نے لکھا ہے ’’پریاگ راج: اسپتال میں خاتون نے پڑھی نماز۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کر شروع کی جانچ۔‘‘ اب اس معاملے میں پولس کا بیان سامنے آیا ہے اور انھوں نے اویسی کے دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے۔

پریاگ راج پولس نے ایک پریس نوٹ جاری کر وضاحت پیش کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’خاتون کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں کی گئی۔ خاتون کی ایک رشتہ دار اسپتال میں داخل ہیں۔ خاتون نے ایک کنارے نماز ادا کرتے ہوئے رشتہ دار کی سلامتی کے لیے دعاء کی تھی۔ خاتون کے ذریعہ پڑھی گئی نماز سے اسپتال کے کام یا مریضوں کو دقت نہیں ہوئی۔ خاتون کے نماز پڑھنے کا معاملہ قطعی جرم کے درجہ میں نہیں آتا ہے۔ کچھ لوگ غلط جانکاری کے ساتھ معاملے کو بے وجہ طول دے رہے ہیں۔‘‘