افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار ہونے کے بعد وہاں کے حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے ذریعہ کئی ایسے فرامین صادر کیے گئے ہیں جس کی قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر تنقید ہوئی ہے۔ خواتین سے متعلق کئی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں اور طالبان حکومت کے خلاف بولنے والوں کو خاموش کرنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ ایک تازہ فرمان میں اعلان کیا گیا ہے کہ بغیر ثبوت افغانی دانشوروں کی تنقید کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ یہ بیان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ بغیر کسی ثبوت اسلامی امارات آف افغانستان کے دانشوروں اور عوامی خدمت گاروں کی تنقید کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے مبینہ طور پر اپنے لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کے ذریعہ دی گئی ہدایات کے نئے مجموعہ کو شائع بھی کیا ہے۔ ذبیح اللہ نے ان ہدایات کو لوگوں اور میڈیا کے لیے ایک طرح کی شریعہ ذمہ داری بتائی ہے۔
طالبان کا یہ فرمان میڈیا اداروں کے لیے دھمکی قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل ایسی کچھ خبریں سامنے آئی ہیں جن میں سنی پشتون گروپ پر طویل مدت سے حقوق انسانی کی شدید خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور اکثر لڑکیوں کی تعلیم و خواتین کے حقوق پر اپنے رخ کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لگاتار اس طرح کی تنقید کو دیکھتے ہوئے ہی طالبان کا نیا فرمان سامنے آیا ہے۔