ملک کے موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل سائٹس قائد کی جدوجہد کو، ان کے منصوبوں کو، کام کی حکمت عملی کو، ان کے احکام و ہدایات کو عام مسلمانوں تک پہنچائے۔ وہ غیر جانبدار نہیں، حق کا طرفدار بن کر سامنے آئے۔

صحافت جو جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، اس کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ وہ خبروں کو چھاپ دے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ جو صالح اقدار ہیں، ملک کے دستور کا جو تقاضہ ہے، دین و شریعت جس کا مطالبہ کرتا ہے، اس کو بلاخوف سماج کے سامنے لائے۔ مذہب کی بنیاد پر نہ سہی، انسانی بنیادوں پر ہی وہ اچھا سماج بنانے کی سعی میں ہاتھ بٹائے۔ میڈیا کو زرد صحافت اور بکاؤ صحافت سے باہر نکل کر اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے۔

ایک عاشق نے اپنی محبوبہ کی نازک خرامی اور رقیبوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’زیر قدمت ہزار جان است‘۔ آج جو میڈیا کی اہمیت ہے، ذرائع ابلاغ کے جو اثرات ہیں، سوشل سائٹس کا جو بڑھتا ہوا دائرہ کار ہے، اس کی روشنی میں ’قدمت‘ کے ’دال‘ کو ’لام‘ سے بدل دیجیے اور صحافیوں کو بتا دیجیے کہ ’زیر قلمت ہزار جان است‘۔ تمہارے قلم کے نیچے ہزاروں جان کا مسئلہ ہے۔ تم نے بھڑکاؤ مضامین اور رذائل کو پھیلانے والے آرٹیکل شائع کیے تو ہزاروں کی جان جائے گی۔ اس لیے قلم کو محتاط رکھیے اور اس کا استعمال اللہ کی امانت سمجھ کر کیجیے۔

(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ)