افریقی ملک تیونیشیا میں 25 جون کو ایک اہم سرگرمی اس وقت دیکھنے کو ملے گی جب آئین کا ایک اہم ڈرافٹ ریفرنڈم کے لیے پیش کیا جائے گا۔ تیونیشیا میں تختہ پلٹ کے ایک سال بعد ملک کے صدر قیس سعید ایک ایسے آئینی مسودے کو منظوری دینے جا رہے ہیں جس کے بعد اسلام کا ریاستی مذہب کا درجہ ختم ہو جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تیونیشیا کے صدر نے ہوائی اڈے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تیونیشیا کے اگلے آئین میں اسلام ریاست (ملک) کے سرکاری مذہب کی شکل میں نہیں رہے گا، بلکہ یہ ایک امت (طبقہ) کی شکل میں ہوگا۔‘‘
دراصل شمالی افریقی ملک تیونیشیا میں مسلم اکثریت میں ہیں۔ اس کے باوجود تیونیشیا میں اسلامی قانون یعنی شریعت پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ملک میں قانون کا بیشتر حصہ یوروپین سول لاء پر مبنی ہے۔ اب صدر قیس سعید تیونیشیائی آئین سے اسلام کا ریاستی مذہب کا درجہ بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس ملک کے کئی سیاسی لیڈران صدر کے اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آئینی مسودہ کمیٹی کی صدارت کرنے والے تیونش لاء اسکول کے سابق ڈین سدوک بیلیڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک کے نئے آئین میں اسلام کا کوئی حوالہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تیونیشیا کے 80 فیصد سے زائد لوگ اسلامی سیاست کے مخالف ہیں اور شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ بہرحال، اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ریفرنڈم کا ریزلٹ کیا ہوگا۔