دوشنبہ، تاجکستان: ’’اردو کی غزلیہ شاعری ہندوستان کے اپنے تہذیبی، ثقافتی و جمالیاتی حسن اور دلکشی، سادگی و نزاکت سے بھری پڑی ہے۔ اردو کا مکمل شعری منظرنامہ ایک الگ نزاکت اور امتیازی شناخت کا حامل نظر آتا ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر مشتاق صدف نے ڈپارٹمنٹ آف انڈین فلولوجی، تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ کے زیر اہتمام ’درس کشادہ‘ پروگرام کے تحت توسیعی خطبہ بعنوان ’غزلیہ شاعری میں ہندوستانی ذہن و تہذیب کی عکاسی‘ میں کیا۔

ڈاکٹر مشتاق صدف (وزیٹنگ پروفیسر، آئی سی سی آر چیئر، تاجک نیشنل یونیورسٹی) نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب تو نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا اپنا ایک سماج ضرور ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اردو کی غزلیہ شاعری کی جان اس کی اپنی شعریات ہے جو یہاں کی مٹی سے قائم ہوئی ہے۔ غزلیہ شاعری میں بھگتی و تصوف کے ساتھ ساتھ عشق اور حسن و جمال کا تصور ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔

درس کشادہ کے تحت منعقد اس جلسے کی صدارت پدم شری پروفیسر رجب حبیب اللہ نے فرمائی۔ انھوں نے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اردو کی غزلیہ شاعری کی بنیاد بہت مضبوط اور اس کا میدان انتہائی ویسع ہے۔ تقریب کی نظامت صدر شعبہ انڈین فلولوجی ڈاکٹر قربانوف حیدر نے کی اور مہمان مقرر کا تعارف بھی پیش کیا۔ اس موقع پر تاجک انٹرنیشنل یونیورسٹی آف فارین لینگویجیز بنام سوتم الغزودہ ڈاکٹر اہتم شاہ یونسی، ڈاکٹر زرینہ، ڈاکٹر علی خان اور ڈاکٹر یوروا صباحت کے علاوہ طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔