کرناٹک کے میسورو میں ایک مندر منہدم کیے جانے کے بعد ریاستی حکومت کو ہندو تنظیموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کرناٹک ہندو مہاسبھا کے سکریٹری دھرمیندر نے تو کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی کے خلاف اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہم نے گاندھی جی کو نہیں بخشا، پھر آپ کیا چیز ہیں۔‘‘ اس متنازعہ بیان کے بعد منگلورو پولیس نے وزیر اعلیٰ کو دھمکی دینے کے الزام میں انھیں گرفتار کر لیا ہے۔

بہر حال دھرمیندر نے اپنے بیان میں برسراقتدار بی جے پی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس نے میسورو میں ایک قدیم مندر کو منہدم کرنے کی اجازت دے کر ہندوؤں کی پیٹھ میں چھپرا گھونپا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں کے خلاف حملوں کو لے کر اگر گاندھی جی کو مارنا ممکن تھا تو آپ (بسوراج بومئی) کیا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھرمیندر کے خلاف ہندو مہاسبھا کے ریاستی صدر نے ہی شکایت درج کرائی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پارٹی نے دھرمیندر کو سال 2018 میں ہی نکال دیا تھا۔

دوسری طرف دھرمیندر نے بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں یہ لڑائی لڑ رہے سَنگھ پریوار پر افسوس ہے۔ اگر وہ اپنی لڑائی کے تئیں ایماندار ہیں تو آنے والے انتخابات میں بی جے پی کی جگہ ہندو مہاسبھا کی حمایت کرنی چاہیے جو ہندوتوا پر مبنی پارٹی ہے۔‘‘