سپریم کورٹ نے ’طلاق حسن‘ کے خلاف داخل عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اسے تین طلاق سے مختلف معاملہ قرار دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’’پہلی نظر میں ہم عرضی دہندہ سے متفق نہیں ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس معاملے میں کوئی ایجنڈا بن جائے۔ طلاقِ حسن میں ہر تین ماہ میں طلاق بولا جاتا ہے، اور خواتین کے پاس بھی ’خلع‘ کا متبادل موجود ہے۔‘‘ اس رد عمل پر وکیل پنکی آنند نے کہا کہ وہ عرضی دہندہ سے اس معاملے میں ضروری معلومات حاصل کر عدالت آئیں گی۔ پھر عدالت نے سماعت آئندہ 29 اگست تک کے لیے ملتوی کر دی۔

دراصل غازی آباد باشندہ بے نظیر نے مئی 2022 میں طلاقِ حسن کے خلاف عرضی دی تھی۔ اس عرضی پر 16 اگست کو جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے سماعت کی۔ بنچ نے کہا کہ ’’اگر شوہر-بیوی ساتھ نہ رہنا چاہیں تو آپسی اتفاق سے طلاق دیا جا سکتا ہے۔ یہ بروقت تین طلاق جیسا نہیں ہے جسے غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔‘‘

غور طلب ہے کہ طلاق دینے کے تین طریقے ہیں (1) احسن، (2) حسن، (3) بدعی۔ طلاق احسن یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق ایک ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے مجامعت نہ کی ہو اورعدت گزرنے تک اسے چھوڑ دے۔ طلاق حسن کا طریقہ یہ ہے کہ مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے۔ طلاق بدعی، یعنی اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے۔