کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کی نئی کتاب ’سنرائز اوور ایودھیا‘ پر تنازعہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کچھ کانگریس لیڈران بھی سلمان خورشید کی کچھ باتوں سے متفق نہیں ہیں۔ کئی ریاستوں میں سلمان خورشید کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہوئی ہے جس پر معافی مانگی جانی چاہیے۔

دراصل کتاب میں ایک باب ’دی سیفرن اسکائی‘ یعنی ’بھگوان آسمان‘ کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اس کے پہلے ہی پیراگراف میں سلمان خورشید نے لکھا ہے ’’سناتن مذہب اور کلاسیکی ہندوتوا کی پہچان سادھو-سَنتوں سے رہی ہے جسے اب ہندوتوا کی ایک مضبوط شکل سے کنارے لگایا جا رہا ہے۔ ہر طرح سے یہ سیاسی شکل حال کے سالوں میں نظر آ رہی آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرم جیسی جہادی تنظیموں جیسی ہے۔‘‘ سارا ہنگامہ انہی الفاظ کو لے کر ہے۔ ممبئی، اتر پردیش اور جموں سمیت کئی ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سَلمان خورشید کے پُتلے بھی نذرِ آتش ہوئے ہیں۔

بڑھتے تنازعہ کے درمیان سلمان خورشید نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہنگامہ وہ کر رہے ہیں جن کی انگریزی کمزور ہے۔ سنیچر کے روز اتر پردیش کے سنبھل میں منعقد ایک تقریب کے دوران وہ کہتے ہیں ’’میں نے یہ نہیں کہا کہ ہندوتوا اور آئی ایس آئی ایس ایک ہیں، بلکہ یہ کہا کہ دونوں ایک جیسے ہیں۔‘‘