کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق تنازعہ جاری ہے۔ اس درمیان 17 فروری کو بھی کرناٹک ہائی کورٹ میں معاملے کی سماعت ہو رہی ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں فوری طور پر کوئی فیصلہ صادر ہو، اس کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔ 16 فروری کو ہوئی سماعت میں مسلم طالبات کی طرف سے کئی دلیلیں پیش کی گئیں اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو غلط ٹھہرایا گیا۔ مسلم طالبات کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ ’’لاکیٹ، چوڑی، کراس، بِندی پر پابندی نہیں ہے تو سرکاری حکم میں صرف حجاب پر ہی سوال کیوں؟‘‘
کرناٹک ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعتوں میں صاف طور پر کہا ہے کہ حجاب پر پابندی کے تعلق سے قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ سنایا جائے گا۔ کرناٹک حکومت نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ جو بھی ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے اسمبلی میں یہ بات کہی۔ علاوہ ازیں کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا گیانیندر نے مظاہرین سے دو ٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
غور طلب ہے کہ حجاب تنازعہ کا اثر اب یوپی، مدھیہ پردیش، آسام جیسی ریاستوں میں دکھائی دینے لگا ہے۔ اس معاملے پر کرناٹک کے بعد یوپی میں سب سے زیادہ گھمسان مچا ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر اسدالدین اویسی تک لگاتار اس سلسلے میں بیان دے رہے ہیں۔