وقت کا کارواں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جاتا ہے اور حال ماضی کا واقعہ بن کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ باوجود اس کے ہم ماضی کی یادوں سے نکل نہیں پاتے۔ خاص کر اس وقت جب ان یادوں کا تعلق ان مقدس ہستیوں سے ہو جن کی فیض تربیت سے یہ زندگی بنتی اور سنورتی ہے۔ ان سے وابستہ یادیں جب شدت اختیار کرتی ہیں تو آنکھوں سے اشکوں کا دریا پھوٹ پڑتا ہے۔ امی-ابو کو رخصت ہوئے چند مہینے ہی تو ہوئے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے گویا زندگی کی تمام تر رونقیں تمام ہو گئی ہوں۔
ان کے بغیر ماہ رمضان کے پرکیف لمحے بھی موسم بہار میں خزاں کا احساس کراتے ہیں۔ یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہو، میں اخیر عشرہ میں گھر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوں اور اُدھر ایک انتظار کا عالم ہے۔ چند ساعتوں میں یہ انتظار ختم ہوتا ہے اور میں گھر کی دہلیز پر موجود ہوتا ہوں۔ گھر کے بیرونی حصے میں بستر پر دراز والد محترم مجھے دیکھ کر محبت سے مسکراتے ہیں اور میں انکے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ چند ثانیے میں والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضری ہوتی ہے اور وہ مجھے لعل و گہر سے زیادہ قیمتی دعاؤں سے نوازتی ہیں۔
افسوس کہ اب خانۂ من ان کے سایۂ رحمت سے محروم ہے۔ لیکن ان کی دی ہوئی تعلیم کی برکتیں تادمِ حیات ہمارے اوپر سایہ فگن رہیں گی۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے…
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)