قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) کے ایک فرمان نے ان سبھی مدارس میں ہلچل پیدا کر دی ہے جہاں مسلم بچوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کمیشن نے کہا ہے کہ ملک بھر کے امداد یافتہ اور منظور شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر مسلم طلبا و طالبات کے بارے میں پتہ کیا جائے۔ اس کے بعد انھیں وہاں سے نکال کر آر ٹی ای (تعلیم کا حق) ایکٹ کے تحت جنرل تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا کر ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔

دراصل کمیشن کے چیئرمین پریانک قانونگو نے سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو خط بھیجا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ مدارس مذہبی تعلیم دینے والے ادارے ہیں۔ مختلف ذرائع سے ایسی شکایتیں ملی ہیں کہ حکومت کے ذریعہ منظور شدہ و امداد یافتہ مدارس میں غیر مسلم بچے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں اور انھیں وظیفہ بھی ملتا ہے۔ کمیشن نے اسے آئین کے آرٹیکل 28(3) کی خلاف ورزی بتایا ہے۔

خط میں سبھی ریاستوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے امداد یافتہ اور منظور شدہ مدارس کی جانچ کرائی جائے جہاں غیر مسلم بچے پڑھ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پتہ کر جنرل تعلیمی اداروں میں داخلے کا انتظام کرایا جائے۔ حالانکہ مدرسہ ایجوکیشن کونسل چیئرمین ڈاکٹر افتخار جاوید نے اس سلسلے میں کوئی جانکاری نہ ہونے کی بات کہی ہے۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ اگر ایسا ہے تو یہ مناسب فیصلہ نہیں۔