الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 8 جنوری کو 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے لیے تاریخوں کا اعلان کر دیا۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں 10 فروری سے ووٹ ڈالے جائیں گے اور 10 مارچ کو نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی مثالی ضابطہ اخلاق (ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) کا نفاذ بھی عمل میں آ گیا۔ گویا کہ اب ان پانچوں ریاستوں کی حکومتیں ’بے دَم‘ ہو گئی ہیں۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہوں یا پھر وزراء، کوئی بھی سرکاری طیاروں اور گاڑیوں کا استعمال پارٹی یا امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں کر سکتا۔ وزرائے اعلیٰ اور وزراء انتخابی عمل میں شامل کسی افسر سے ملاقات بھی نہیں کر پائیں گے۔
مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد ریاستی حکومتوں کی ’خستہ حالی‘ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سرکاری پیسے کا استعمال اشتہار یا عوامی رابطہ کے لیے بھی نہیں کر سکتیں۔ اگر پہلے سے کوئی اشتہار چل رہا ہوگا تو اسے بھی ہٹا لیا جائے گا۔ کسی بھی طرح کے نئے منصوبہ، تعمیری کام، افتتاح یا سنگ بنیاد کا پروگرام بھی منعقد نہیں ہو سکتا۔
مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد الیکشن کمیشن بہت مضبوط بن جاتا ہے۔ اگر ریاستی حکومت کچھ بھی کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے الیکشن کمیشن کو بتانا ہوگا اور اس کی منظوری لینی ہوگی۔ اگر کوئی امیدوار مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف مجرمانہ مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔